بسم الله الرحمن الرحيم
موت كے بعد دوباره اٹھايا جانا
تمهيد
موت نام هے ايك ايسي حالت كا, جس ميں مرنے والا اس دنيا سے پوري طرح كٹ جاتا هے۔ اور يه موت هر اس چيز كے لئے حتمي هے, جس كے اندر روح تسليم كيا جائے۔ اس بات پر كسي كا اختلاف نهيں هے۔ سوائے چند صوفيانه شطحيات وموشگافيوں كے۔ دنياوي لاجك كے باعتبار معدوم سے وجود ميں آنے والا دوباره اس دنيا سے معدوم هو جاتا هے۔ پهلے عدم كو هم اسلامي نظريات كے مطابق عالم ارواح كهتے هيں۔ اس دنيا كو عالم وجود, اور دوسرے عدم كو عالم برزخ, جس كے بعد عالم آخرت هے۔
مسئلۀ بعث بعد الموت كي اهميت
موت كے بعد كي بعثت دنيا كا بهت هي پيچيده مسئله رها هے۔ كيوں كه يه غيبيات ميں سے هے۔ اور منكرين اسلام كا سب سے بڑا شبه بھي يهي رها هے۔ جس ميں محض انسان هي نهيں, بلكه جنات بھي شامل رهے هيں۔ اس پر غالبا وه لوگ شك كرتے هيں, جو ان سے پهلي دنياؤں ميں الله كي كاريگري كو تسليم كرتے هيں۔ كيوں كه جو سرے سے اسلام كو هي تسليم نه كرتا هو, اس كے لئے نماز ميں رفع اليدين سنت هے يا نهيں, يه بحث بے معنى هے۔ يا محض فتنه انگيزي هے۔
بعث بعد الموت كا انكار كيوں؟!
ڈولي كا واقعه هميں ياد هے۔ ايك مخلوق انسان دوسرےمخلوق بكري كے جينات سے استفاده كر كے اس كا استنساخ كر سكتا هے۔ اس پر مستزاد يه كه مرده كے جينات سے اس كے استنساخ پر ريسرچ كيا جا رها هے۔ اگر چه زير بحث موضوع كے مطابق يه بعث نهيں هے۔ مگر خالق جس نے اس انسان كو بغير كسي نمونه كے پهلي بار بنايا, اسے دوباره كھڑا كرنے سے عاجز كيوں هوگا؟! افسوس كه انسان اپني طاقت كو تو تسليم كرتا هے۔ مگر الله كي قدرت كو نكار ديتا هے۔ جب كه اس كي طاقت الله هي كے مرهون منت هے۔
منهج اثبات مسئلۀ بعث بعد الموت
قرآن كريم نے انتهائي شرح وبسط كے ساتھ اس مسئله كو ليا هے۔ منكرين كے مواقف كو اجاگر كيا هے۔ ان كے اهداف ومقاصد كو بے پرده كيا هے۔ اور مختلف انداز سے ان كے شكوك وشبهات اور اعتراضات كا رد كيا هے۔ هم اس بحث ميں انھيں ميں سے چند پر اكتفا كريں گے۔ قرآن كو كلام الله نه ماننے والوں كے لئے يه دليليں عقلي, جب كه كلام الله ماننے والوں كے لئے شرعي وعقلي دونوں هوں گي۔
بعث بعد الموت كے بارے ميں منكرين كے مواقف
منكرين كا پهلاموقف:
دوباره اٹھائے جانے پر تعجب, تكذيب اور انكار كرنا۔
الله تعالے فرماتا هے: " ق! بہت بڑی شان والے اس قرآن کی قسم ہے۔ بلکہ انہیں تعجب معلوم ہوا کہ ان کے پاس انہی میں سے ایک آگاه کرنے والا آیا, تو کافروں نے کہا کہ یہ ایک عجیب چیز ہے۔ کیا جب ہم مر کر مٹی ہو جائیں گے۔ پھر یہ واپسی دور (از عقل) ہے" (سورة ق : 1- 3)
اس موقف كي وجه:
1- بلا هواده جاه ومال اور بيوي بچوں كي هوس, اور كسي مواخذه يا محاسبه كے تصور سے بالا تر دنياوي لذتوں ميں ڈوبے رهنے كي هوس۔ لهذا انھيں هر ايسے بندھنوں كو توڑنا پڑا, جسے اپني راه ميں حائل محسوس كيا۔
الله تعالے فرماتا هے: "اور یہ کہتے ہیں کہ صرف یہی دنیاوی زندگی ہماری زندگی ہے۔ اور ہم زنده نہ کئے جائیں گے" (سورة الأنعام: 29) اور يهي مضمون (سورة المؤمنون: 37) اور (سورة الجاثية:24)ميں بھي هے۔
اگر يه بات هے, تو واضح رهے كه الله تعالے نے ان دنياوي ملذات سے انھيں روكا نهيں هے۔ سوائے ان چيزوں, يا ان طريقوں كے, جن سے انھيں در حقيقت نقصان هے۔ جو انھيں نظر نهيں آتا۔
جيسا كه (سورة الأعراف/32) ميں فرمايا: "آپ فرمائیے کہ اللہ تعالیٰ کے پیدا کئے ہوئے اسباب زینت کو، جن کو اس نے اپنے بندوں کے واسطے بنایا ہے, اور کھانے پینے کی حلال چیزوں کو کس شخص نے حرام کیا ہے؟ آپ کہہ دیجئے کہ یہ اشیاء اس طور پر کہ قیامت کے روز خالص ہوں گی اہل ایمان کے لئے، دنیوی زندگی میں مومنوں کے لئے بھی ہیں۔ ہم اسی طرح تمام آیات کو سمجھ داروں کے واسطے صاف صاف بیان کرتے ہیں"
منكرين كا دوسرا موقف
2- شك وشبه اور اس غيبي خبر پر عدم يقين۔ الله تعالے نے (سورة الجاثية: 32) ميں فرمايا: "اور جب کبھی کہا جاتا کہ اللہ کا وعده یقیناً سچا ہے۔ اور قیامت کے آنے میں کوئی شک نہیں, تو تم جواب دیتے تھے, کہ ہم نہیں جانتے قیامت کیا چیز ہے؟ ہمیں کچھ یوں ہی سا خیال ہوجاتا ہے۔ لیکن ہمیں یقین نہیں"
اس موقف كي وجه
اس موقف كي وجه در اصل الله كے وجود پر هي شك كرنا هے۔ اس لئے الله تعالے نے انھيں ياد دلايا, كه تم تو الله كے وجود كو مانتے هو, پھر كيا وجه هے كه اس كي قدرت اور غلبه پر شك كرتے هو۔
اس پر الله تعالے نے(سورة إبراهيم: 10) ميں زمين وآسمان ميں جو كچھ هے, اس پر تامل كرنے كي دعوت دي ۔ اور ان كے شك كا رد كيا۔
فرمايا:"ان کے رسولوں نے انہیں کہا کہ کیا حق تعالیٰ کے بارے میں تمہیں شک ہے, جو آسمانوں اور زمین کا بنانے والا ہے؟ وه تو تمہیں اس لئے بلا رہا ہے, کہ تمہارے گناه معاف فرما دے، اور ایک مقرر وقت تک تمہیں مہلت عطا فرمائے، انہوں نے کہا کہ تم تو ہم جیسے ہی انسان ہو, تم چاہتے ہو کہ ہمیں ان خداؤں کی عبادت سے روک دو, جن کی عبادت ہمارے باپ دادا کرتے رہے۔ اچھا تو ہمارے سامنے کوئی کھلی دلیل پیش کرو"
منكرين كا تيسرا موقف
3- الله كي نشانيوں كا انكار, اور جو كچھ الله كي كاري گري هے, ان سب سے اعراض كرنا۔ يا تو اس بارے ميں سوچنے سے بھاگنا۔ يا بے توجهي برتنا۔
اس موقف كي وجه
الله كي نشانيوں سے اعراض كرنا, غور وتدبر نه كرنا, اور اپني جهالت پر اڑے رهنا۔
الله نے(سورة يس: 78) ميں اس پر رد كرتے هوئے فرمايا: "اور اس نے ہمارے لئے مثال بیان کی, اور اپنی (اصل) پیدائش کو بھول گیا، کہنے لگا ان گلی سڑی ہڈیوں کو کون زنده کر سکتا ہے؟
اور ان كي خلقت ياد دلائي ۔ كه عدم سے جو تمهيں وجود ميں لا سكتا هے۔ وه تمهاري بوسيده هڈيوں سے دوباره كيوں كھڑا نهيں كر سكتا ؟!
نيز (سورة سبأ : 7- 9)ميں بھي يه مضمون موجود هے, كه: "اور کافروں نے کہا: (آؤ) ہم تمہیں ایک ایسا شخص بتلائیں, جو تمہیں یہ خبر پہنچا رہا ہے, کہ جب تم بالکل ہی ریزه ریزه ہوجاؤ گے, تو تم پھر سے ایک نئی پیدائش میں آؤ گے۔ (ہم نہیں کہہ سکتے) کہ خود اس نے (ہی) اللہ پر جھوٹ باندھ لیا ہے, یا اسے دیوانگی ہے, بلکہ (حقیقت یہ ہے) کہ آخرت پر یقین نہ رکھنے والے ہی عذاب میں, اور دور کی گمراہی میں ہیں۔ کیا پس وه اپنے آگے پیچھے آسمان وزمین کو دیکھ نہیں رہے ہیں؟ اگر ہم چاہیں تو انہیں زمین میں دھنسا دیں, یا ان پر آسمان کے ٹکڑے گرادیں، یقیناً اس میں پوری دلیل ہے ہر اس بندے کے لئے جو (دل سے) متوجہ ہو"
بلكه (سورة غافر: 57) ميں اس مسئلے كو سمجھنے كے لئے الله تعالے نے اور بھي آسان بنا ديا۔ فرمايا: "آسمان و زمین کی پیدائش یقیناً انسان کی پیدائش سے بہت بڑا کام ہے، لیکن (یہ اور بات ہے کہ) اکثر لوگ بےعلم ہیں"
منكرين كا چوتھا موقف
4- پهلي امتوں ميں سے منكرين بعث كي اندھي تقليد, الله نے(سورة المؤمنون: 81- 83)ميں فرمايا: "بلکہ ان لوگوں نے بھی ویسی ہی بات کہی, جو اگلے کہتے چلے آئے۔ کہ کیا جب ہم مر کر مٹی اور ہڈی ہوجائیں گے, کیا پھر بھی ہم ضرور اٹھائے جائیں گے؟ ہم سے اور ہمارے باپ دادوں سے پہلے ہی یہ وعده ہوتا چلا آیا ہے, کچھ نہیں یہ تو صرف اگلے لوگوں کے افسانے ہیں"
اس موقف كي وجه
اس موقف كي وجه شخصيت پرستي اور اندھي عقيدت هے۔ يه ايك بري تقليد هے۔ جو كسي دليل پر قائم نهيں هے۔ جب ان سے اس بات كے لئے دليل كا مطالبه كيا جاتا هے, تو وه اپنے آباء واجداد كے عمل كو پيش كرتے هيں۔ جو كه خود محتاج دليل هے۔
منكرين كا پانچواں موقف
5- جب انسان مٹي ميں تحليل هو جائے, اور وه بكھر جائے, تو يه بات مستحيل هے كه دوباره اسے كھڑا كيا جا سكے۔
اس موقف كي وجه
عادة ايسا هونا ديكھا نهيں گيا هے۔ اس لئے وه اس كو مستحيل سمجھتے هيں۔
وه يه بھول جاتے هيں, كه رب وه هے جو هر چيز پر قادر هے۔ جب وه جس چيز كا اراده كر لے, تو كهه دے "كن" اور وه هو گيا۔ تو پھر اس كے يهاں كچھ بھي مستحيل هونا كس طرح ممكن هے؟! در اصل اس كو مستحيل كهنا, رب اور اس كي قدرت كا انكار كرنا هے۔ جب كه حال يه هے كه وه سينكڑوں معبودوں كي پوجا پاٹ كر رهے هيں۔ پھر ان كي قدرت كو بھي مانتے هيں۔ تو حيرت هے كه الله كي اس قدرت كا انكار كيوں كر رهے هيں؟!
الله نے (سورة الرعد: 5)ميں فرمايا: " اگر تجھے تعجب ہو تو واقعی ان کا یہ کہنا عجیب ہے, کہ کیا جب ہم مٹی ہو جائیں گے۔ تو کیا ہم نئی پیدائش میں ہوں گے؟ "
نيز(سورة سبأ: 7)ميں فرمايا: " اور کافروں نے کہا (آؤ) ہم تمہیں ایک ایسا شخص بتلائیں, جو تمہیں یہ خبر پہنچا رہا ہے , کہ جب تم بالکل ہی ریزه ریزه ہوجاؤ گے, تو تم پھر سے ایک نئی پیدائش میں آؤ گے"
يهي مضمون (سورة السجدة: 10) اور (سورة ق:4) وغيره ميں بھي هے۔
دلائل اثبات بعث بعد الموت
v 1- اگر دوباره اٹھايا نه جائے, حساب وكتاب نه هو, برے اعمال كي سزا اور اچھے اعمال كا بدله نه ملے, اور يوں هي پيدا هوتے رهيں اور مر مٹ كر ختم هوتے رهيں۔ تو اس سے دنيا كا بے كار وعبث هونا لازم آتا هے۔
الله (سورة المؤمنون : 115)ميں فرماتا هے:" کیا تم یہ گمان کئے ہوئے ہو, کہ ہم نے تمہیں یوں ہی بیکار پیدا کیا ہے۔ اور یہ کہ تم ہماری طرف لوٹائے ہی نہ جاؤ گے"
يهي باتيں (سورة الجاثية : 21)، (سورة غافر : 58) اور (سورة السجدة : 18) ميں بھي هيں۔
نيز(سورة القيامة : 36)ميں فرمايا: "کیا انسان یہ سمجھتا ہے کہ اسے بیکار چھوڑ دیا جائے گا؟!"
تخليق كے مختلف پيچيده مراحل سے گزارتے هوئے الله تعالے نے جس انسان كي تخليق فرمائي, كيا وه اسے يوں هي مر مٹ كر برباد هونے دے گا۔ هرگز نهيں!
الله تعالے نے (سورة المؤمنون : 115) ميں فرمايا: "کیا تم یہ گمان کئے ہوئے ہو کہ ہم نے تمہیں یوں ہی بیکار پیدا کیا ہے, اور یہ کہ تم ہماری طرف لوٹائے ہی نہ جاؤ گے؟!
v 2- پهلي خلقت كي جانب اشاره كرتے هوئے دوسري بار زنده كرنے پر قدرت كي يقين دهاني كرائي, الله تعالى نے (سورة الروم:27)ميں فرمايا: "وہی ہے جو اول بار مخلوق کو پیدا کرتا ہے, پھر سے دوباره پیدا کرے گا, اور یہ تو اس پر بہت ہی آسان ہے"
كه جو پهلي بار عدم سے وجود ميں لا سكتا هے, وه دوسري بار بھي اس پر قادر هے۔
نيز(سورة يس: 78)ميں فرمايا: "اور اس نے ہمارے لئے مثال بیان کی اور اپنی (اصل) پیدائش کو بھول گیا، کہنے لگا ان گلی سڑی ہڈیوں کو کون زنده کر سکتا ہے؟"
پھر الله تعالے نے واضح طور پر (سورة الحج / 5- 7)ميں انكار بعث كا كئي انداز سے رد كيا۔
الله تعالے نے سواليه انداز ميں بھي منكرين كا رد فرمايا۔ ارشاد هے: " لوگو! اگر تمہیں مرنے کے بعد جی اٹھنے میں شک ہے" اور رحم ميں اعجازانه طور پر جنين كےمراحل تخليق كو اس سوال كا جواب قرار ديا, جو كه منكرين پر رد هے۔
اور فرمايا: "تو سوچو ہم نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا, پھر نطفہ سے پھر خون بستہ سے پھر گوشت کے لوتھڑے سے جو صورت دیا گیا تھا, اور بے نقشہ تھا۔ یہ ہم تم پر ظاهر کر دیتے ہیں، اور ہم جسے چاہیں ایک ٹھہرائے ہوئے وقت تک رحم مادر میں رکھتے ہیں"
پھر انساني زندگي كو سمجھنے كے لئے مرده زمين كو زندگي بخشنے كي طرف اشاره فرمايا۔ "پھر تمہیں بچپن کی حالت میں دنیا میں لاتے ہیں, پھر تاکہ تم اپنی پوری جوانی کو پہنچو، تم میں سے بعض تو وه ہیں جو فوت کر لئے جاتے ہیں, اور بعض بے غرض عمر کی طرف پھر سے لوٹا دیئے جاتے ہیں, کہ وه ایک چیز سے باخبر ہونے کے بعد پھر بے خبر ہو جائے"
اور اس واضح رپورٹ پر آيت كا خاتمه فرمايا: "یہ اس لئے کہ اللہ ہی حق ہے, اور وہی مردوں کو جِلاتا ہے, اور وه ہر ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ اور یہ کہ قیامت قطعاً آنے والی ہے, جس میں کوئی شک وشبہ نہیں, اور یقیناً اللہ تعالیٰ قبروں والوں کو دوباره زنده فرمائے گا"
ايك بار پھر(سورة مريم: 66- 67)ميں اسي انداز كو دهرايا جاتا هے:"انسان کہتا ہے کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا پھر زنده کر کے نکالا جاؤں گا؟ کیا یہ انسان اتنا بھی یاد نہیں رکھتا کہ ہم نے اسے اس سے پہلے پیدا کیا حالانکہ وه کچھ بھی نہ تھا"
v 3- جب الله انسان كو پيدا كر سكتا هے, تو اسے مرنے كے بعد دوباره اٹھانے پر بھي قادر هے۔
v 4- انسان كو عدم سے وجود ميں لانا بھي دليل هے, كه وهي الله مرنے كے اسےبعد دوباره وجود ميں لا سكتا هے۔
v 5- مرده اور بنجر زمينوں كو جو زنده اور هري بھري كر ديتا هے, وه مرده انسان كو بھي زنده كر سكتا هے۔
v 6- زمين وآسمان كي خلقت بھي رهنمائي كرتي هے, كه جس نے انھيں پيدا كيا, وه انسان كي بعثت پر قادر هے۔
v 7- قرآن كے پانچ تاريخي واقعات بھي انسان كي بعثت كو ثابت كرتے هيں۔ جن ميں الله نے مردوں كو زنده كر كے لوگوں كو دكھايا۔
· بني اسرائيل كي ايك جماعت نے حضرت موسى عليه السلام سے مطالبه كيا كه هم كھلے طور پر الله كا ديدار كرنا چاهتے هيں۔ اس پر ايك زور دار چيخ نمودار هوئي۔ جس سے ان كي موت واقع هو گئي۔ حضرت موسى عليه السلام كي دعا كے سبب الله نے انھيں دوباره زندگي عطا فرمائي۔ (البقرة: 54-55).
· بني اسرائيل نے الله كے رسول موسى عليه السلام سے ايك قاتل كي نشاندهي كے لئےتعاون طلب كيا۔ الله تعالے نے انھيں ايك گائے ذبح كركے اس كے گوشت كو مقتول كے جسم سے لمس كرانے كا حكم ديا۔ اس طرح اعجازي طور پر الله تعالے نے اس مقتول كو كچھ دير كے لئے زنده كر ديا۔ اس نے اپنے قاتل كا نام بتا يا, پھر دوباره ابدي نيند سو گيا۔ (البقرة: 68-71)
· بني اسرائيل هي كا ايك وفدموت كے ڈر سے اپنا شهر چھوڑ كر نكل گيا۔ تو الله نے انھيں موت دے دي۔ پھر دوباره انھيں زندگي بخشي۔ (البقرة: 243)
· حضرت عزير عليه السلام جب ايك ويران گاؤں سے گزرے, تو انھوں نے كها كه اسے الله تعالے كس طرح دوباره آباد كرے گا؟! تو الله تعالے نے انھيں موت كي نيند سلاديا۔ پھر دوباره انھيں زنده كيا۔ (البقرة: 359).
· حضرت ابراهيم عليه السلام نے اطمينان قلب كے لئے مردوں كو زنده كرنے كي كيفيت ديكھنے كي خواهش ظاهر كي۔ تو الله نے انھيں چار پرندوں كو پكڑ كر انھيں ذبح كرنے, اور ان كے گوشت كو ايك دوسرے ميں خلط ملط كر كے اسے چار الگ الگ پهاڑوں پر تقسيم كر كے آواز دينے كا حكم فرمايا۔ اس طرح وه چاروں پرندے الله كے حكم سے دوباره زنده هو گئے۔ (البقرة: 360)
اثبات بعث بعد الموت كے دلائل كا جائزه
· مذكوره دلائل ميں سے محض آخري دليل ايسي هے, ملحدين جس كا انكار كر سكيں۔ كيوں كه يه واقعات غيبي اخبار هيں۔ اور جب وه قرآن كي تصديق هي نهيں كرتے, تو اس كے غيبي اخبار كو دليل كس طرح تسليم كر سكتے؟
· 2- باقي تمام دلائل الزامي اور عقلي هيں۔ يا تو ان سے كناره كشي كے لئے كوئي معقول جواب ديں, جو ان سے اب تك نه هو سكا هے۔ يا انھيں تسليم كر ليں۔ جو كه بعث بعد الموت كو تسليم كرنا هے۔
v اگر كسي كے گھر كو اس كے مكينوں سميت كوئي دھماكے سے اڑا دے, اورمظلوم كو پروف نه هونے كے سبب دنيا ميں انصاف نه مل سكا۔ تو كيا يه مجرمين كو بڑھاوا دينا, اور مظلوموں كو كسي بھي طرح اپنا بدله لينے پر اكسانا نهيں هے؟! كيا پورا خاندان كا خون يوں هي بے گار هو گيا؟! كيا اس طرح پوري دنيا بے كار هے؟!
v جو الله پوري مخلوقات كو پهلي بار بغير كسي نمونه كے پيدا كر سكتا هے, تو دوسري بار اسي ڈھانچے كو كيوں كھڑا نهيں كر سكتا؟! انسان تو خود مردے كو دوباره چلنے پھرنے كے لائق بنانے پر ريسرچ كر رها هے۔ اسي كام كو خالق السماوات والارض كے لئے مستحيل كيوں سمجھتا هے؟! مستحيل تو اس دور ميں سمجھا گيا تھا, جب انسان عجيب تاريكيوں ميں جي رها تھا۔ اب تو انسان بھي خود كئي طرح كے حيرت انگيز انكشافات كر رها هے۔ جيسے بكري كا بچه "ڈولي" كا واقعه۔
v جب وه بے جان بنجر زمين كو جان دے سكتا, اور اسے دوباره آباد اور هري بھري كر سكتا هے۔ بے جان رحم سے ايك جاندار انسان كو نكال سكتا هے, تو بے جان مٹي سے بوسيده ڈھانچے كو دوباره كيوں كھڑا نهيں كر سكتا؟!
v زمين وآسمان كي خلقت انسان كي خلقت سے بهت زياده اهم اور مشكل ترين هے۔ جب وه زمين وآسمان كو بنا سكتا هے, تو ايك انسان كو دوسري بار كھڑا كر دينا تو بهر حال اس سے آسان هے۔
v اگر كوئي سمجھتا هے كه يه سارا كچھ خود بخود هو رها هے۔ ان كا كوئي كرنے والا نهيں هے۔ تو وه يهي مان ليں كه بعث بعد الموت هوگا, خواه ان كي سمجھ سے خود بخود هي سهي۔ جوپهلي بار خود بخود بنا هے, وه دوباره بھي بن سكتا هے۔
الله تعالےبهترين اعمال و عقائد كي جانب هماري رهنمائي فرمائے, جو عقائد واعمال رسول الله صلى الله عليه وسلم كے تھے۔ اور اس پر هميں ثابت قدم ركھے۔ نيز هم ميں جو بے راه روي كے شكار هو چكے هيں,الله تعالے حق كي جانب ان كي واپسي كرے۔ وصلى الله وسلم وبارك وانعم على نبينا محمد وعلى آله وصحبه اجمعين۔
از رشحات قلم
عبد الله الكافي المحمدي
داعيه ومترجم شعبۀ جاليات دعوه سينٹر محافظه تيماء
وزارت برائے اسلامي امور واوقاف سعودي عرب
بتاريخ: 24 ربيع الآخر 1435 ھ
موافق: 24 فروري 2014ء بروز منگل